شب غم ہے مگر چاند کا آنا نہیں اچھا
جو ذہن میں بس جائے تو جانا نہیں اچھا
وہ جائے تو کچھ دیر میں جل جاتی ہیں آنکھیں
اس دل سے محبت کا مچانا نہیں اچھا
چھپ کر ہی وہ رہتا ہے کسی روپ میں رہ لے
دانستہ کوئی سانپ کو لانا نہیں اچھا
بہہ جائے نہ قرطاس پہ آنکھوں کا سمندر
جزبات کو یوں شعروں میں ڈھانا نہیں اچھا
بیتی ہے مری عمر ترا نام سجاتے
اب بھی یہ مرا شوق ستانا نہیں اچھا
اک روز میں نکلی تھی خفا یار منانے
اس روز سے دل کا یہ منانا نہیں اچھا
روشن ہے دیا آج تو پھر طاق میں رکھ دو
ورنہ یہ کوئی خواب سہانہ نہیں اچھا
اک عمر گزاری ہے ترے درد نگر میں
چاہت کی نشانی ہے ،اٹھانا نہیں اچھا
جس شخص نے آنکھؤں پہ بٹھایا مجھے وشمہ
اس کی تو محبت کا زمانہ نہیں اچھا