وہ جاتے جاتے زندگی سنسان کر گیا
گلشن سے آنکھ پھیر کے ویران کر گیا
شام و سحر کی آج کہاں ہے خبر مجھے
وہ مجھ کو حسرتوں کا ہے زندان کر گیا
بیٹھی ہوں میں اداس سی اپنے ہی درمیاں
کیسے غمِ حیات کا عنوان کر گیا
رنگیں رتوں میں آپ کا ملنا وہ پہلی بار
آنکھوں کی سر زمین کو بے جان کر گیا
الفت کے جرم میں جو رہا ہے مرا شریک
کیوں درد کی سزاؤں کا اعلان کر گیا
چھوڑا نہیں نصیب میں کچھ یاد کے سوا
ہر حال میں وہ میرا ہی نقصان کر گیا
وشمہ تجھے جو پیار کی محفل نہ مل سکی
دنیا میں کیا یہ آج کا انسان کر گیا