وہ جب سے غیر کی محفل میں آنے جانے لگے
ہمارے دل میں کئ درد گھر بنانے لگے
تمہارا ہجر کیا کم تھا مرے جلانے کو
مری ہتھیلی پہ کیوں جگنو ٹمٹمانے لگے
میں اپنے درد کا کیا تذکرہ وہاں کرتا
کہ مجھسے ملتے ہی سب اپنے دکھ سنانے لگے
اے میرے دل نہ اسے یاد کر کے اتنا رو
کہ تجھ کو دیکھ کے ہر اک کو رحم آنے لگے
جو ساتھ غیر کے دیکھا انہیں تو دکھ یوں ہوا
بجھے بجھے سے جو تھے زخم سر اٹھانے لگے
انہیں تو مجھ سے بلا کی تھی کل تلک نفرت
وہ میری قبر پہ اب آنسو کیوں بہانے لگے
جو کل تلک مرے ٹکڑوں پہ پلتے تھے باقرؔ
وہ تنگ دست مجھے پا کے مسکرانے لگے