اس سے بولو کہ نہ ایسے اچھالے جائے
وہ جو دریا ہے تو مجھ کو بھی بہا لے جائے
پھول ہے تو اپنی خوشبو سے مہکا دے مجھ کو
ہے جو کانٹا تو میرے درد بڑھا لے جائے
پانیوں سے اٹا میں تنہا بادل ٹھہرا
اپنے سنگ مجھ کو بھی باد صبا لے جائے
ملے کاش ہر اک کو اس کی وفاؤں کا صلہ
ہر مجرم عشق اپنے حصے کی سزا لے جائے
چلے جو بھی مسافر میری نگری سے تو فقط
اک استدا ہے کہ وہ ماں کی دعا لے جائے
کوئی تو اترے مسیحا میری بستی میں بھی ایسا
سارے روٹھے ہوئے باسی وہ منا لے جائے
ہم فقیروں کے مقدر میں نہیں تھمنا کاشی
چلے چلیں گے جس سمت قضا لے جائے