وہ جو پہلا شعر میں نے تمہیں دیکھ کر کہا تھا
Poet: mannan bijnori By: mannan bijnori, mumbai indiaجو سکوں بچھڑ گیا تھا وہ ملا کہ لاپتہ ہے
وہ جو ٹیس اک ملی تھی کہو اس کا حال کیا ہے
وہ جو گھر تھا اک تمہارا مرے گھر سے تھوڑا آگے
وہاں رہتے کیوں نہیں ہو وہاں تالا کیوں لگا ہے
وہ جو پہلا شعر میں نے تمہیں دیکھ کر کہا تھا
وہ تمہارے ہی لئے تھا سو کہیں نہیں پڑھا ہے
وہ جو مختصر سند یسہ مرے نام تھا تمہارا
اسے سیو کر لیا تھا اسے بار ہا پڑھا ہے
وہ جو حرف تم نے کاڑھا تھا رومال پر ٹسر سے
کوئی دھاگا ٹوٹنے سے اب ادھڑ تا جا ر ہا ہے
وہ جو گٹھلیاں د با ئیں تھیں سڑک کنارے ہم نے
وہاں جامنوں کے پیڑوں پہ سما بہار کا ہے
وہ جو چائے بیچتا تھا سرِ راہ کلہڑوں میں
میں نے اس سے چائے مانگی تو وہ دو تھما گیا ہے
وہ جو بیچتا تھا جاڑوں میں کراری مونگ پھلیاں
مجھے تنہا آتے جاتے بڑے دکھ سے دیکھتا ہے
وہ جو پا بریدہ سائل ہمیں دیتا تھا دعائیں
مجھے دیکھتے ہی بچھڑوں کا اتارا مانگتا ہے
وہ جو سلسلہ چھتوں کا بڑی دور تک تھا یکساں
اسے کچھ عمارتوں نے کئی لخت کر دیا ہے
وہ جو امتحان کے کمرے میں قلم دیا تھا تم نے
مری شرحِ ہجر لکھنے کو اتاولا ہوا ہے
وہ جو دل گداز باتیں تری ٹیپ کی تھیں میں نے
انھیں سن کے آج دل پر مرے کچھ ملال سا ہے
وہ جو اک خمار سا تھا مجھے تیری چاہتوں کا
تری بے دلی سے منان اب اترتا جا رہا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






