اسے بھی تو میری پروا ہے
پیاس شددت کی پر صحرا ہے
کہاں تک جاؤں اسے ڈھونڈتے
چاروں طرف اندھیروں کی ہوا ہے
مٹی سا ہو گیا اب تو وجود میرا
ہمت حوصلہ ہی اب ہمرا ہے
وہ رحیم ، وہ کریم کیوں نا سنے گا مجھے
میرے لبوں پر تو اک ہی صدا ہے
میں آج بہت روئی اس کے لیے
جو چارہ گر ، میرا ہمنوا ہے
کوئی علاج ہو میری مرض کا
میرے لیے تو لکی وہی شفا وہی دوا ہے