وہ ستمگر مری بانہوں میں سمٹنے آیا
مجھ کو تڑپا ہی گیا، ایسے لپٹنے آیا
میں نے تنہائی کی برسوں میں بچھائی تھی بساط
وہ اُسے ایک ہی لحظے میں اُلٹنے آیا
ابر تھا، رعد تھی، طوفاں تھا ، نہ کچھ تھی ہلچل
کیا ہوا تھا اسے، بے وجہ چمٹنے آیا
اُس کی قربت کا نشہ وہ تھا کہ بہکا میں بھی
وہ بھی مستی میں تھا سرشار، رپٹنے آیا
لذت وصل کی امید بندھائی پہلے
پھر بساط شب ہجراں کو پلٹنے آیا
وصل کی آگ کی لپٹوں سے جلا پھر اظہر
راکھ اُڑنے جو لگی، راکھ سے اٹنے آیا