وہ جگنو وہ ستارہ وہ چمکتی ہوئی آنکھیں
دل کے دریچے پہ وہ سلگتی ہوئی آنکھیں
رات بھر جو نیند سے لڑتی رہتیں ہیں
صبح کی چاندنی میں وہ بے کل ہوئی آنکھیں
نظر اٹھی تو اک سکوں سا منتظر پایا
دبیز پردوں سے وہ جھانکتی ہوئی آنکھیں
دروازہ کھول کے شب بھر بیٹھے رہے
گھر کی دہلیز پہ وہ جمی ہوئی آنکھیں
اب ناں چین اور ناں کوئی خواب آتا ہے
ہر اک آہٹ پے وہ جاگتی ہوئی آنکھیں
اک سرسراہٹ سی مجھ میں دوڑ جاتی ہے
جسم کے پیرھن پہ وہ سجی ہوئی آنکھیں