وہ شحص میرے خوابوں کی تعبیر کی طرح تھا
Poet: Eisha-Tul-Razia(مسافر) By: Eisha-Tul-Razia, GUJRATوہ وقت اور تقدیر سے..... لڑتا ہوا شخص...
مرے ہاتھوں کی مٹی ہوئی لکیر کی طرح تھا
اسکو دیکھتے ہی لبوں پر دعائیں آتی تھیں
وہ شحص دعاوں میں تاسیر کی طرح تھا
میرے دل کی سلطنت کا بادشاہ تھا وہ..
بظاہر وہ اجرے ہوئے فقیر کی طرح تھا...
اسے دیکھ کر زندگی کے سب عنوان بدل جاتے تھے
وہ شخص میرے جذبات کی تسخیر کی طرح تھا
مین اسکو دیکھ کر نظریں جھکائے رکھتا تھا
وہ شحص میرے لیے میری توقیر کی طرح تھا
جب بھی ملتا تھا وہ مجھ سے تو حق جتلاتا تھا
میں اسکے لیے.... اسکی.. جاگیر کی طرح تھا
اسکی باتوں میں مرے دل کے سبھی الفاظ بسے تھے
وہ شحص.... میری خاموشی کی تفسیر کی طرح تھا.
اسے دیکھ کے لگتا تھا ........ میں مکمل ہوں....
وہ شحص میرے خوابوں کی تعبیر کی طرح تھا
اسے دیکھ کر ایک عجب تسلی سی ملا کرتی تھی
وہ وقتِ سحر کے سماء کی تصویر کی طرح تھا
اسے ملتے ہی مسافر میں سب بھول جاتا تھا
وہ شخص مری سوچوں کی تاخیر کی طرح تھا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






