وہ صورت گرد غم میں چھپ گئی ہو
بہت ممکن یہ وہی آدمی ہو
میں ٹھہرا آبشار شہر پر فن
گھنے جنگل میں تم بہتی ندی ہو
بہت مصروف ہے انگشت نغمہ
مگر تم تو ابھی تک بانسری ہو
میری آنکھوں میں ریگستاں بسے ہیں
کوئی ایسے میں ساون کی جھڑی ہو
دیا جو بجھ چکا ہے پھر جلانا
بہت محسوس جب میری کمی ہو
یہ شب جیسے کوئی بے ماں کی بچی
اکیلے روتے روتے سو گئی ہو
وہ دریا میں نہانا چاندنی کا
کہ چاندنی جیسے گھل کے بہہ رہی ہو
کہانی کہنے والے کہہ رہے ہیں
مگر جانے وہی جس پر پڑی ہو
میاں! دیوان کا مت رعب ڈالو
پڑھو کوئی غزل جو واقعی ہو
غزل وہ مت سنانا ہم کو شاعر
جو بے حد محفلوں میں چل چکی ہو