وہ لڑکی جسے کل تک میں جانتا بھی نہ تھا
Poet: NEHAL GILL By: NEHAL, Gujranwalaبند آنکھوں سے بھی اُس کا دیدار ہوتا جا رہا ہے
لگتا ہے جیسے اُس سے پیار ہوتا جا رہا ہے
بنا اُس کے کوئی پل گزرتا نہیں میرا
جینا بن اُس کے میرا دشوار ہوتا جا رہا ہے
وہ لڑکی جسے کل تک میں جانتا بھی نہ تھا
آج میری رگ رگ پے اُس کا اختیار ہوتا جا رہا ہے
معشومیت سے چُھوٹا جو اُس کی نظروں سے
وہ تیر میرے دل کے پار ہوتا جا رہا ہے
میرے خیالوں میں کوئی رہنے لگا ہے
میری سوچوں پے کوئی اب سوار ہوتا جا رہا ہے
خدا بچائے مجھے بہت ڈر سا لگا ہے
بے خودی سی دل یہ بے قرار ہوتا جا رہا ہے
خدا جانے اب کیا ہوگا میرے دل کا
بے چارہ دل عشقِ بیمار ہوتا جا رہا ہے
دو چار پل جیئے ہے جس کے سنگ بس
دیوانہ اُس کے لئے مرنے کو تیار ہوتا جا رہا ہے
دن میں جتنی بار دیکھتا ہوں اُس کو
پل پل میرے لئے اِک تہوار ہوتا جا رہا ہے
وہ بھی میرے ساتھ رہنے کو تیار ہے
نہال اب شاید خدا میرا طرفدار ہوتا جا رہا ہے
عجب سی کشش ہے اُس لڑکی کی چاہت میں
جس کے لئے جہاں بھر سے تکرار ہوتا جا رہا ہے
کومل پری نام رکھو اُس کا یا کچھ اور
خدا قسم کتنا یہ کام دشوار ہوتا جا رہا ہے
اب سرخ لباس پہنا کے لے آئوں اُسے
دل کا بلند یہ اب اصرار ہوتا جا رہا ہے
سنورنے لگی ہے زندگی نہال میری اب ذرا ذرا
خود بخود ہر شے پے سنگار ہوتا جا رہا ہے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






