توڑنے سے جو نہ توٹے ایسے برہم دے گئی،
وہ لڑکی مجھکو ایک ساتھ کتنے غم دے گئی،
اُسے معلوم تھا بچھڑ کے اُس سے مر جائوں گا
وہ جینے کی مجھکو چھوڑ کے قسم دے گئی،
نہ جان سے مارا نہ اُس نے چھوڑا مجھے
بس یادوں کے ساتھ تنہائی کا قدم دے گئی،
میری رگوں سے خون نچوڑ لیتی میں کوئی نہ گلہ کرتا
بے شک موت دے دیتی کیوں آنکھ میں مری نم دے گئی،
میری خطا تھی میں وفا کر بیٹھا سزا میں مجھکو درد ملا
چھین کے سرد وفا کی وہ ، ہواہیں ہجر کی گرم دے گئی،
مرے دل پے لگا وہ داغِ ہجر گئی جو نہ پھر مٹ سکا
کومل جیسے سینے پے لاکھوں وہ زخم دے گئی،
لے کے بہار اور میری برساتیں ساری
خزائوں کے مجھکو بے رنگ موسم دے گئی،
میری انجمنیں ساری لٹ گئی ویران سب کچھ ہو گیا
نہال کو درد سے بھری ہوئی وہ لڑکی اِک بزم دے گئی،