آج بھی اک اجنبی کا انتظار کر رہا ہے دل
نا چاہ کر بھی وفاؤں کی بات کر رہا ہے دل
آج جب تنہا ہوا تو پھر سے ذکرے یار کر رہا ہے دل
وہ کون تھا ، وہ کیسا تھا پھر ُاسی کے لیے فریاد کر رہا ہے دل
کیوں کیا ُاس نے میرے ساتھ ایسا یہی سوچ کر خود کو نڈھال کر رہا ہے دل
نجانے ہماری قسمت کیا ہے لکی جو بار بار مجھے آزما رہا ہے دل
وہ محبت نہیں عشق تھا میرا جسے وہ الزام لگا کر ٹھکرا رہا ہے دل