وہ مرے دل کو عداوت سے جلا بیٹھے ہیں
خود مکیں جس کے تھے وہ گھر ہی گرا بیٹھے ہیں
آخرت میں بھی کہاں ان سے کریں گے شکوہ
ہم پہ جو ظلم ہوئے ہم تو بھلا بیٹھے ہیں
فائدہ اب ترے آنے کا بھلا کیا ہم کو
اب تو ہم جینے کی خواہش بھی مٹا بیٹھے ہیں
ہم پہ کیا خاک اثر وعظ کرے گا ناصح
جسم کیا روح کو بھی غم میں پلا بیٹھے ہیں
ان سے ملنے کا خسارہ بھی ذرا دیکھو تو
ایک ہی دل تھا ہمارا وہ گنوا بیٹھے ہیں
ہم نے تو خود پہ بھی کیا ظلم روا رکھے ہیں
سوزِ دل کو بھی تو اک ساز بنا بیٹھے ہیں
گر عیاں ایک بھی ہو حشر بپا ہو جائے
سینکڑوں زخم جو ہم دل میں چھپا بیٹھے ہیں
ہم نے معصوم سے چہرے سے لگایا دل تھا
کیا خبر تھی کہ ستم گر سے لگا بیٹھے ہیں
کون سی بات کا ہم شانؔ ادا شکر کریں
دو گھڑی پاس وہ بیٹھے تو کیا بیٹھے ہیں