وہ مرے پیار کا عنوان بھی ہو سکتا ہے
کوئی پتھر یہاں "مرجان" بھی ہو سکتا ہے
میرے اس شعر کو اک پھول سمجھ کر رکھ لو
آپ کے نام تو دیوان بھی ہوسکتا ہے
جس نے اس شہر محبت پہ قیامت ڈھا دیکب یہ سوچا تھا
کہ انسان بھی ہو سکتا ہے
اس نے جو درد کی دولت ہے عطا کی مجھ کو
غم بھلانے کا یہ سامان بھی ہو سکتا ہے
میری آنکھوں کے دریچوں کو نہ کھولو ورنہ
یہاں میخانے میں نقصان بھی ہو سکتا ہے
حاکمِ شہر سے کہہ دو کہ نہ توڑے رسمیں
ورنہ یہ شہر تو ویران بھی ہو سکتا ہے
میں نے سوچا تھا سدا مل کے کراچی رہنا
تری چاہت میں تو "ملتان" بھی ہو سکتا ہے
تُو نے گلشن سے تو مانگے ہیں کئی پھول مگر
وشمہ تقدیر میں گلدان بھی ہو سکتا ہے