وہ ملا مگر وہ ملا نہیں
مرا تھا مگر وہ ہوا نہیں
یہ عجب ہوا مرا ہمسفر
مرے ساتھ ساتھ چلا نہیں
جو ضرورتیں مجھے آ پڑیں
کوئی آشنا پھر دکھا نہیں
وہ شجر ہے کس کی دعا تلے
جو کہ آندھیوں میں گرا نہیں
وہ گمان تھا کہ یقین تھا
تھا وہ جو بھی دل سے گیا نہیں
میں محبتوں کا چراغ ہوں
کبھی آندھیوں سے بجھا نہیں
مری نسبتیں ہیں حسین سے
میں یزیدیوں سے ڈرا نہیں