جو حال آج ادھر ہے وہ بیقرار کرے
وہ منتظر مری آہٹ کا انتظار کرے
وہ سنگدل ہی سہی پر نہ اس قدر ہو گا
محبتوں کا کبھی اس پہ بھی وہ وار کرے
اسے بھی ہو گی تمنا مری رفاقت کی
عزیز اس کو مرا شہر ، اشکبار کرے
وہ چاند مجھ سے تعلق تو خاص رکھتا ہے
میں رات ہوں مرے آنگن میں ہی حصار کرے
ملے گا شام و سحر بے قرار ہو کے مجھے
نہ اس کے بس میں زباں ہو گی نہ ہی پیار کرے
رکی ہوئی ہوں تو اس کے قدم بھی ساکت ہیں
جو چل دیا تو سدا میرا شرمسار کرے
اداس لمحوں میں وشمہ وہ جب ملا مجھ سے
نظر اٹھا کے کہا کچھ نہ جاں نثار کرے