وہ میری داستاں مجھکو سنا کے روئے تو کیا
خود اپنے ساتھ مجھے بھی رُلا کے روئے تو کیا
نہ اب ِکھلے گا کوئی پھول دشتِ امکاں میں
وہ میرے حال پہ یوں منہ چھپا کے روئے تو کیا
اگر نہیں تھا کوئی راستہ پلٹنے کا
خود اپنے ہاتھ سے کشتی جلا کے روئے تو کیا
اب اتنی بار تو مرنے کا حوصلہ بھی نہیں
وہ بار بار مجھے آزما کے روئے تو کیا
سنو یہ درد کا رشتہ تم ہی نے جوڑا تھا
پھر اسکے بعد گلے سے لگا کے روئے تو کیا
بھر ی بہاَر میں اب سینہ پیٹتی ہے ہوا
وہ شہرِ دل میں تباہی مچا کے روئے تو کیا
نہ ہو گی ختم کبھی کج رَوی زمانے کی
جو دوست ہم کو تماشہ بنا کے روئے تو کیا
یہ ڈھو نگ کیسا ہے کچھ تو دلِ ہز یں سے کہو
ذرا سی بات پہ اُدھم مچاَ کے روئے تو کیا
سبھی کو دُکھ ہے ، ہمیں بھی ملال ہے انور
زمانہ آپ کو ا تنا رُلا کے روئے تو کیا