روح میں اتر کے وہ میرے سب راز لے گیا
وہ میرے موسموں کے سبھی انداز لے گیا
میں جان پایا نہ کبھی اس کے مزاج کو
آنکھیں ویران کر کے وہ میرے خواب لے گیا
زخم زخم سانسیں تھیں اور کرچی کرچی وجود
کانٹے چبھا کے وہ میرے سب گلاب لے گیا
رہے لفظ میرے اس کے اشاروں کے منتظر
دل کی جو میں نے کھولی تھی وہ کتاب لے گیا
کس طرح ہم لوٹ جائیں یہ سوچتے رہے
اور پہلا قدم اٹھا کے وہ ثواب لے گیا