وہ میرے شہر میں آیا ہوا ہے
کڑکتی دھوپ میں سایا ہوا ہے
اْسے معلوم شاید ہو گیا ہے
میں زندہ ہوں تو گھبرایا ہوا ہے
دلِ برباد کو تیری وجہ سے
نئی اْلفت میں اْلجھایا ہوا ہے
محبت کر نہیں سکتا میں ٹِک کر
کسی نے طلسم کروایا ہوا ہے
بڑی دلچسپ ہے راہِ محبت
کبھی توْ بھی یہاں آیا ہوا ہے
ندامت ساتھ ہے سنگ ہے خوشی بھی
اْسے خِلوت میں بلوایا ہوا ہے
دماغِ تنگ کے ہر فیصلے کو
دلِ رنگیں نے ٹھکرایا ہوا ہے