وہ میرے پاس ہے میرے خوابوں کی طرح
دور ہے مجھ سے تعبیروں کی طرح
ڈھونڈنے سے ملتا نہیں وہ مجھ کو مگر
سمویا ہوا ہے مجھ میں میرے ہاتھ کی لکیروں کی طرح
اس کا کیا کیجیئے جو بٹ چکا ہو
ہر اک کے پاس جاگیروں کی طرح
ہر اک مشتاق رہتا ہے اس کا ‘ محفل میں جب
اس کا حسن پھیل جاتا ہے چاند کی لکیروں کی طرح
خواب خود تک محدود رکھو تو بہتر ہے
پھیل نہ جائے دنیا میں بن کر سفیروں کی طرح