وہ میٹھی نیند میں سویا حسین اک گلاب لگتا ہے
میرے خوابو ں کی جنت کا کو ئی کردار لگتا ہے
وہ تکلم جب بھی کرتا ہے نیند سے اُٹھ کر
تو اس ارادے میں بہت بے قرار لگتا ہے
وہ جب بھی نیند سے جاگے تو یوں نشِمن میں
کسی دُلہن کے جیسے نیا سا خمار لگتا ہے
کاش کہ برس جائے کسی روز پھول کی مانند مجھ پر
کہ وہ ہی بس خشبوؤں کا گلزار لگتا ہے
وہ مجھ سے دور رہ کر بھی کبھی دُور نہیں لگتا
یوں کہ میری آنکھوں میں سمٹا حسین اک خواب لگتا ہے