وہ نہیں میرا، مگر اس سے محبت ہے تو ہے
یہ اگر رسم و رواجوں سے بغاوت ہے تو ہے
سچ کو میں نے سچ کہا، جب کہہ دیا تو کہہ دیا
آب زمانے کی نظرمیں یہ حماقت ہے تو ہے
کب کہا میں نے کہ وہ مل جائے مجھ کو میں اسے
غیر نہ ہوجائے وہ، بس اتنی سی حسرت ہے تو ہے
جل گیا پروانہ، تو کیا خطا ہے شمع کی
رات بھر جلنا جلانا، اُس کی قسمت ہے تو ہے
دوست بن کردشمنوں سا ستاتا ہے وہ مجھے
پھر بھی اس ظالم پہ مرنا، اپنی فطرت ہے تو ہے