وہ وہاں تو میں یہاں خوش نہیں
دلوں کیا رغبت میں جہاں خوش نہیں
مناجاتوں سے اب مَن بھی بھر نکلے
کوئی کہاں تو کوئی کہاں خوش نہیں
یہ مجاز شوق کچھ ایسا بھی نہیں مگر
فاصلہ دو دلوں کے درمیاں خوش نہیں
روگ تو اک عدم قابلیت بھی ہے
ہر علالت کا بس ارمان خوش نہیں
اے غم الاہی تیرے تلطف کا پہلوُ
روح سے کوئی اترتا کہ رجحان خوش نہیں
اپنی بھی کائنات کچھ کم نہیں ہے سنتوشؔ
لگتا ہے کہ لوگوں کے ایمان خوش نہیں