وہ پری حسن مرے خوابوں میں آتا ہے بہت
گر نہیں آیا تو راتوں کو جگاتا ہے بہت
لوگ مظلو م ہمیں کہتے ہیں تو کہنے دو
تیرا انداز ستم ہم کو تو بھا تا ہے بہت
غائبانہ ہی سہی ہے وہ ستم گر کتنا
نیند بھی آنے نہیں دیتا ستا تا ہے بہت
گھر کا گھر کیوں ترا بیمار پڑا رہتا ہے
اچھی تنخواہ ہے اوپر کی کماتا ہے بہت
مر گیا بھوک سے ہمسایہ ترا اے مغر ور
کچھ نہیں پاس ترے اور دکھاتا ہے بہت
باتوں باتوں میں سبھی راز اگلواتا ہے
پیتا خود کم ہے مگر ہم کو پلا تا ہے بہت
آگے کم ظرف کے مت ہاتھ کبھی پھیلا نا
کر کے احسان ذرا سا وہ جتا تا ہے بہت
اس لئے گھومتے ہیں سب ترے آگے پیچھے
تو حسینوں کے حسن ناز اٹھا تا ہے بہت