میں نہیں بھول سکتا جب بھی یاد آتا ہے رُلا جاتا ہے
ترا گلی سے گزرنا اور کچھ نہ کہنا مگر سب کہہ جانا
تراایک ہاتھ سے چھلا لینا اور اپنا میرے ہاتھ مہں پکڑا جانا،
اور مسکرا کے نظریں جھکانا۔دید کی بے قراری میں کبھی
دروازے میں کبھی چھٹ پے چڑھ کے مجھے گلی میں تلاش
کرنا۔اور جب نہ ملنا تو فون کر کے باہر بلانا کچھ نہ کہنا صرف دیکھتے رہنا۔
مجھے تری نظروں میں پیار نظر آتا تھا،
اس پیار میں سارا سنسار نظر آتا تھا،
سچ پوچھو تو کہتا ہوں خدا کی قسم
تری نظروں میں رب جیسا اعتبار نظر آتا تھا،
اب جب میں کبھی گلی سے گزرتا ہوں تری پرچھائی مجھے پکارتی ہے،
گرنے لگو تو جیسے آ سبھالتی ہے، ہاتھوں میں جب اپنے تری نشانی دیکھوں
تو ترا مسکرانا یاد آتا ہے، ترے دروازے کے آگے سے گزرتا ہوں مگر اب کوئی باہر
نہیں آتا کوئی چھٹ پے نہیں ہوتا،اب کبھی کسی کا فون بھی نہیں آتا کہ نہال
میری جان باہر آئو ذرا۔مجھے ترا دیدار کرنا ہے تم کو نہ دیکھوں تو نیند آتی چین
نہیں آتا قرار نہیں آتا،مگر اب تو کوئی بھی نہیں ہے میرے پاس جب سے تم گئی
ہو میں تنہا ہوں میری جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنی اس ویران زندگی کو دیکھتا ہوں تو ترے
ساتھ گزارہ پل یاد آتا ہے اور رُلا جاتا ہے رُلا جاتا ہے