وہ پیار کے وعدے بھول گئی؟؟
Poet: muhammad nawaz By: muhammad nawaz, sangla hillوہ ریت کا گھر کیا اب بھی ہے؟
لمحوں سے مفر کیا اب بھی ہے؟
مدہوش کٹورا آنکھوں میں
پانی کا سفر کیا اب بھی ہے؟
جس کے دامن میں بیٹھ کے ہم
کچھ گیت بکھیرا کرتے تھے
ہر فکر کی ظلمت سے ہٹ کر
لفظوں کا سویرا کرتے تھے
اس “لاجیا“ کے اک کونے میں
برگد کا شجر کیا اب بھی ہے؟
کچھ یاد ہے سرما کی شامیں
اک ساتھ بتایا کرتے تھے
جب برگ ہتھیلی پر رکھ کے
پھونکوں سے اڑایا کرتے تھے
جب وقت کے پنچھی کو اپنا
احساس دلایا کرتے تھے
اور آتے سمے کے اندیشے
کرنوں کو تھمایا کرتے تھے
ان دھندلی دھندلی کرنوں میں
پیغام سحر کیا اب بھی ہے؟
وہ یاد ہیں لمحے کہ جن میں
تم خواب پرویا کرتی ہے
کچھ سوچ کے نادانستہ پھر
پلکوں کو بھگویی کرتی تھی
چھپ چھپ کر گھر والوں سے
اک یاد میں کھویا کرتی تھی
اس یاد میں شاداں رہتی تھی
اس یاد میں رویا کرتی تھی
اس سوچ کی ننھی پریوں کو
تقدیر کا ڈر کیا اب بھی ہے؟
رنگوں کے لبادے بھول گئی؟
احساس کے جادے بھول گئی؟
کیا زر کے شہ کو پا کے تم
وہ سارے پیادے بھول گئی؟
اس زرد ملمع سازی میں
جذبات وہ سادے بھول گئی؟
تو جن پہ نازاں رہتی تھی
اور جن کو جیون کہتی تھی
وہ سارے ارادے بھول گئی؟
وہ پیار کے وّعدے بھول گئی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لاجیا گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کا ایک خوبصورت پارک جسے لو گارڈن بھی کہتے ہیں اور جہاں اب بھی فیض،صوفی تبسم،اقبال،پظرس بخاری،ن م راشد،ڈاکٹر نزیر،اشفاق احمد،بانو قدسیہ آپا اور کئی نابغہ روزگار شخصیات کا پرتو محسوں کیا جا سکتا ہے ماضی سے حال اور حال سے فردا کا سفر کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






