وہ ریت کا گھر کیا اب بھی ہے؟
لمحوں سے مفر کیا اب بھی ہے؟
مدہوش کٹورا آنکھوں میں
پانی کا سفر کیا اب بھی ہے؟
جس کے دامن میں بیٹھ کے ہم
کچھ گیت بکھیرا کرتے تھے
ہر فکر کی ظلمت سے ہٹ کر
لفظوں کا سویرا کرتے تھے
اس “لاجیا“ کے اک کونے میں
برگد کا شجر کیا اب بھی ہے؟
کچھ یاد ہے سرما کی شامیں
اک ساتھ بتایا کرتے تھے
جب برگ ہتھیلی پر رکھ کے
پھونکوں سے اڑایا کرتے تھے
جب وقت کے پنچھی کو اپنا
احساس دلایا کرتے تھے
اور آتے سمے کے اندیشے
کرنوں کو تھمایا کرتے تھے
ان دھندلی دھندلی کرنوں میں
پیغام سحر کیا اب بھی ہے؟
وہ یاد ہیں لمحے کہ جن میں
تم خواب پرویا کرتی ہے
کچھ سوچ کے نادانستہ پھر
پلکوں کو بھگویی کرتی تھی
چھپ چھپ کر گھر والوں سے
اک یاد میں کھویا کرتی تھی
اس یاد میں شاداں رہتی تھی
اس یاد میں رویا کرتی تھی
اس سوچ کی ننھی پریوں کو
تقدیر کا ڈر کیا اب بھی ہے؟
رنگوں کے لبادے بھول گئی؟
احساس کے جادے بھول گئی؟
کیا زر کے شہ کو پا کے تم
وہ سارے پیادے بھول گئی؟
اس زرد ملمع سازی میں
جذبات وہ سادے بھول گئی؟
تو جن پہ نازاں رہتی تھی
اور جن کو جیون کہتی تھی
وہ سارے ارادے بھول گئی؟
وہ پیار کے وّعدے بھول گئی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لاجیا گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کا ایک خوبصورت پارک جسے لو گارڈن بھی کہتے ہیں اور جہاں اب بھی فیض،صوفی تبسم،اقبال،پظرس بخاری،ن م راشد،ڈاکٹر نزیر،اشفاق احمد،بانو قدسیہ آپا اور کئی نابغہ روزگار شخصیات کا پرتو محسوں کیا جا سکتا ہے ماضی سے حال اور حال سے فردا کا سفر کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔