وہ چاندنی کا بدن خوشبوؤں کا سایا ہے
بہت عزیز ہمیں ہے مگر پرایا ہے
اتر بھی آؤ کبھی آسماں کے زینے سے
تمہیں خدا نے ہمارے لیے بنایا ہے
کہاں سے آئی یہ خوشبو یہ گھر کی خوشبو ہے
اس اجنبی کے اندھیرے میں کون آیا ہے
مہک رہی ہے زمیں چاندنی کے پھولوں سے
خدا کسی کی محبت پہ مسکرایا ہے
اسے کسی کی محبت کا اعتبار نہیں
اسے زمانے نے شاید بہت ستایا ہے
تمام عمر مرا دل اسی دھوئیں میں گھٹا
وہ اک چراغ تھا میں نے اسے بجھایا ہے