کچھ کہتے ھوئے
میں رک کیوں گئی
وہ چھوٹی سی بات
میں کہہ ناں سکی
کہ شرم و حیا کے
رنگیں ستارے
میری گالوں پے
یوں جگمگانے لگے
اور جھکی پلکوؤں کے
سائے تلے
وفا کے دئیے ٹمٹمانے لگے
اور وہ مشرق کی ساری
حسیں تیتلیاں
میرے گرد گھیرا بنانے لگیں
میرے آنچل کو سایہ
بنا کر میرے گیسوؤں کو
یوں چھپانے لگیں
اور میں پھر کہتے ھوئے
رک کیوں گئی
وہ چھوٹی سی بات کہہ نا سکی
لبوں پہ رواجوں کے
دلنشیں پہروں نے
بڑے ناز سے یہ بتایا مجھے
تو محبت کی دیوی مشہور ھے
مگر تیرے مذھب کا
دستور ھے
کہ پلکوؤں کے ہلکے
سے جھکاؤ سے
اپنے دل کی بات
اسطرح کہہ دے
کہ ھونٹوں کو ناں
ہلانے کی ضرورت پڑے
اور شرم و حیا کے
نرم آنچل نے
مجھے اپنی بانہوں میں
اسطرح لے لیا
کہ میں کچھ کہتے ھوئے
رک سی گئی
اور وہ چھوٹی سی بات
اسطرح کہہ گئی
کہ آنکھوں میں جگنؤ
جگمگانے لگے