چاہتوں کا خمار ہے شاید
یہ حسن بیقرار ہے شاید
اب یہاں تو خزاں ہی رہتی ہے
اب وہاں پر بہار ہے شاید
میں جو بیٹھی ہوں یاں لبِ دریا
پھر ترا انتظار ہے شاید
وہ ہمارا تو ہو نہیں سلتا
اس کو غیروں سے پیار ہے شاہد
وہ جو رہتا ہے دل کی دھڑکن میں
میرے دل کا قرار ہے شاید
کھل رہے ہیں جو پھول چاہت کے
وشمہ فصلِ بہا ر ہے شاید