وہ دیوار و در کو سجانے لگے ہیں
نیا حشر شاید اٹھانے لگے ہیں
رکو ایسی جلدی بھی کیا میرے قاتل
ارے آپ سے بھاگ جانے لگے ہیں ؟
جنہیں تیری نیندوں سے ٹالا تھا میں نے
وہی خواب مجھ کو ستانے لگے ہیں
تجھے ایک پل میں یہ کیسے بتا دوں
امیدوں کو بنتے زمانے لگے ہیں
وہ لمحے جو تمہاری یادوں میں بیتے
وہ ماضی کو فردا میں لانے لگے ہیں
میرے سر کے ٹکڑے نہیں ان کا مقصد
وہ دیوار کو آزمانے لگے ہیں
تمنا وفا کی فنا تک تو آئی
چلو کچھ تو جذبے ٹھکانے لگے ہیں
جنہیں گھن سی آتی تھی اہل جنوں سے
وہ آداب الفت سکھانے لگے ہیں
گرے میرے آنسو تو وہ شوخ بولا
شگوفے نئے پھوٹ جانے لگے ہیں
ارے ان کی سرقی کی عادت تو دیکھو
مجھی سے مجھی کو چرانے لگے ہیں