وہی رشتہ ہے میرے اور جانِ من کے بیچ
وھی رشتہ استوار ہے روح و تن کے بیچ
جونھی نظریں اٹھایی وہ سراپا بوستان
دیکھا سمندر کی موجین اک چمن کے بیچ
بیٹھے ہیں طلوعِ آ فتاب و زوالِ شب کا منتظر
اک فصیلِ ظلمت و اک شمعِ ذوفگن کے بیچ
مقصود ایک ہے دونون کا کہ سدھر جائے ہم
تو پھر تمیز کیوں کریں دوست و دشمن کے بیچ
محشر ہوگا برپا، تو پھاڑ آئینگے قبریں
مرے نہیں ہم زندہ ھیں کفن کے بیچ
دیکھتے جاان آنکھوں سے تماشا اور ہنستے جا
کشتی میری پھنس گئی بحرِ موجزن کے بیچ
اتنی یادیں جڑیں غریب الوطنی سے حافظ
فرق ہی نہیں رہا اب پردیس اور وطن کے بیچ