پھر سے وفا مانگی ہے
جینے کی دعا مانگی ہے
ترس گیا اس کی ہنسی کو
پھر سے وہ صدا ہم نے مانگی ہے
یاد ہے وہ مسکراہٹ
آنکھوں نے وہی مسکان مانگی ہے
دنیا تھی وہ ہماری
دل نے وہی کائنات مانگی ہے
ہر لمحہ یاد گار تھا
یاد اس کی مانگی ہے
ہر سپنا لگتا تھا سچا
وہی خوشبو کی برات مانگی ہے
ساتھ ہی تو مانگا تھا
کب چاند سے چاندنی مانگی ہے
ہر سو ہے اندھیرا
بس یادوں کی شمع ہی تو مانگی ہے
کب چاہی تھی بادشاہی
چاہت ہی تو اس کی مانگی ہے
خوش رہے وہ خان
یہی دعا اب مانگی ہے