ویراں ہیں بہت دیدہءِ بیتاب کبھی کے
ہم بھول گئے عشق کے آداب کبھی کے
کب عشق کے موسم میں کھلیں گے گلِ راحت
ہوجائے گے جیسے کے تھے سیراب کبھی کے
چرچا ہے سنا جھولیاں بھرتی ہیں وہا پر
اور ہم سے کئے بیٹھے ہیں حجاب کبھی کے
صحرا کی طرح تپتی زباں تھی کہ دکھے وہ
ہم ہوگئے جیسے کے تھے سیراب کبھی کے
میں جرمِ بغاوت کی سزا کاٹ رہا ہوں
تقسیم ہوئے سب میرے احباب کبھی کے
اک عمر گزاری تھی سہارے خواب کے
اب تعبیر کے چکر میں ہیں بے خواب کبھی کے
سائل نے بھی بیچا ہے خدا کہہ کے عقیدہ
سجدے کے بھکاری ہوئے نایاب کبھی کے