آج تجدید وفا کا دن ہے
آرزوؤں کی بقا کا دن ہے
تنگ نظروں کی بات کیا کیجئے
مردہ ذہنوں کی بات کیا کیجئے
ان کو پھولوں سے بیر ہے شاید
ایسے کانٹوں کی بات کیا کیجئے
آج دنیا کے سب بکھیڑوں سے
آج زنداں کے سب اندھیروں سے
چل ذرا دور جا کے دیکھتے ہیں
اپنے سب غم بھلا کے دیکھتے ہیں
بہت ان ظلمتوں میں رہ چکے ہم
بہت ان سلسلوں کو سہہ چکے ہم
اب کے زخموں کو سی کے دیکھتے ہیں
کیف کا جام پی کے دیکھتے ہیں
ان بکھیڑوں میں بہت جی لیا ہے
اپنی خاطر بھی جی کے دیکھتے ہیں
آج تجدید وفا کا دن ہے
آرزوؤں کی بقا کا دن ہے
کتنے کچے گھڑے یہاں ٹوٹے
کتنے ہی رانجھنوں سے گھر چھوٹے
کتنے ہی قیس رلے صحرا میں
کتنے ہی کوہکنوں کے سر پھوٹے
کئی زلیخائیں ہوئی ہیں بے نام
کئی یوسف سر بازار بکے
اسکی راہوں کی عجب بپتا ہے
قلم لکھتے ہوئے سسکتا ہے
کئی منصور دار پر لٹکے
کئی جذبے ہزار بار بکے
کسی نے تاج محل بنوایا
کسی نے سلطنتیں ٹھکرا دیں
کسی نے زندگی تباہ کر لی
کسی نے موت سے وفا کر لی
آج تجدید وفا کا دن ہے
آرزوؤں کی بقا کا دن ہے
راہ الفت کی ساری داستانیں
آج کہتی ہیں روح انساں سے
اس زمانے کے تپے صحرا میں
اپنے حصے کے پھول بو کے جیو
ہر طرف وحشتیں ہے ۔ دہشت ہے
ہر طرف الجھنیں ہیں ۔ نفرت ہے
مگر اس عرصہء محشر میں لوگوں
کیا ضروری ہے سبھی رو کے جیو
زندگی کے حسین بھی رخ ہیں
ان رخوں میں نظر سمو کے جیو
کس کی خوشیوں کو محسوس کرو
کسی کو اپنا کر اور کسی کے ہو کے جیو
آج تجدید وفا کا دن ہے
آرزوؤں کی بقا کا دن ہے
گلاب جذبوں کے طلاطم میں
موج کھاتے ہوئے پانی کی طرح
رقص کرتی ہوئی ہوائیں ہیں
مہکی مہکی ہوئی فضا ئیں ہیں
ساز کی مست روانی کی طرح
آؤ ان شادماں ہواؤں کو
زندگی سے بھری اداؤں کو
اپنے احساس کا سہارا دیں
اپنے جذبات کا کنارا دیں
آج تجدید وفا کا دن ہے
سرخ پھولوں کی بقا کا دن ہے