تیری محفل میں ہم دیوانہ وار چلے آتے ہیں
شکوے شکائتیں بھلا کر یار چلے آتے ہیں
ہم نے جب بھی کسی شاخ سے پھول توڑا
اس کے ساتھ خار ہی خار چلے آتے ہیں
پہلے تو آتے تھے تیرے بلانے پہ لیکن
اب کرنے تیرا دیدار چلے آتے ہیں
جنہوں نے گھر سے باہر قدم نہ رکھا تھا
تیری خاطر وہ سر بازار چلے آتے ہیں
دل کے دروازے دن رات کھلے رکھتا ہوں
ہر روز نئے کرائے دار چلے آتے ہیں