آنکھوں کو انتظار کے لمحات سونپ کر
وہ شخص چلا گیا قُرب کے لمحات دے کر
تھی اتنی کشش اُسکی ہیئت و وجاہت میں
ہستئ خودی میں کھو گیا اُجڑا نشیمن دے کر
سنگدل تھا اتنا، پھر بھی تھی چاہت اُس سے
کتنا سفاک تھا چھوڑ گیا بے وفا نام دے کر
ہم تو آج بھی ٹھہرے ہیں اُسی مقام پر “فائز“
جہاں چھوڑ گئے تھے آنکھوں کو خواب دے کر