پهر رات بهر زمین خواب کا سفر تھا
ساته میرے اک وہی پری زاد سا تھا
رنگ پڑه گئے تھے ماند سبهی
کچھ ایسا انوکھا اس کا جمال سا تھا
خواہشوں کا میلہ لگا تها دور کہیں
وہ اس میں بھی سربلند کچھ تنہا سا تھا
سانسیں رک سی گئی تھیں میری
اس سے جدائی کا خیال ہی کچھ ایسا محال سا تھا
اور تسبیح کے دانے پهیر رہی تھی میں
ہر دانے پر نام اسی کا کنده سا تھا
یہ آتش عشق کی ہےتپش یا اس کی بے اعتنائی کی
مجھے آجتک اس کا ہی ادراک ہوا نہ تھا