پل پل کی بات ہے ہر پل ایک جیسا نہیں ہوتا
کسی پل کی کائنات اپنی کوئی پل ہمارا نہیں ہوتا
آنے والی لمحوں کو تم آہوں کے بھی قریب رکھو
لیکن کبھی وہ جانے والا کل ہمارا نہیں ہوتا
منزل پر پہنچتے پہنچتے مسافر لوٹ آتے ہیں
کہ کچھ راہوں کا تسلسل ہمارا نہیں ہوتا
تم بھول گئے ہو پھر بھی بھروسا نہیں جاتا
سوچتا ہوں کہ یادوں کا بدل ہمارا نہیں ہوتا
فدائی اور فنائی کی کیا بات کرتے ہو سنتوشؔ
یہ سانس بھی تو اصل ہمارا نہیں ہوتا