اک آئینہ سا عکس دکھاتا رہا شب بھر
پرتو کیسی کا آگ لگاتا رہا شب بھر
مبہم سے اک خیال کی کرنیں سمیٹ کر
پلکوں پہ کوئی دیپ جلاتا رہا شب بھر
سورج کی مستعار شعاؤں کی آڑ میں
دامن کے داغ چاند چھپاتا رہا شب بھر
پھر یوں ہوا کہ آپ کے نقش قدم پہ میں
ہاتھوں کی لکیروں کو مٹاتا رہا شب بھر
اک رشک معجزات بڑے اعتماد سے
سورج مکھی کے پھول کھلاتا رہا شب بھر
اسکو بھی رلاتی رہیں حالات کی موجیں
کنکر ندی میں میں بھی گراتا رہا شب بھر
میں نے تو فقط پوچھا خلاصہ حیات کا
اور خواب مجھے “ہیر“ سناتا رہا شب بھر