پلکوں کی چلمنوں میں چھپایا ہے آپ نے
دھڑکن میں اس طرح سے بسایا ہے آپ نے
بیٹھی ہوئی ہوں آس میں یادوں کی ریت پر
لکھ لکھ کے کئی بار سے مٹایا ہے آپ نے
رکتی نہیں ہے آرزو کی جو فشانیاں
تاروں کے جھمگٹے سے چرایا ہے آپ نے
ہر اک فنا کی راہ سے گزری میں بے دھڑک
طوفاں کو میرے شوق سے ٹا لا ہے آپ نے
پہلے تو احتمال ہی تھا بھول ہو گئی
اُس نے کہی تھی بات جو دہرا ہے آپ نے
اے رشک ناز اب ذرا اٹھکیلیاں نہ کر
دے کر لہو کو تھپکی سلایا ہے آپ نے
اب ڈھونڈ کیا رہے ہو کہ باقی نہیں ہے کچھ
وشمہ کے پاس جو تھا بھلایا ہے آپ نے