جذبہ جو نہیں سچا تو پھر عشق نیا کر
جذبہ ہے اگر سچا تو تجدید وفا کر
میں تیرا ہوں کہہ دے مجھے سینے سے لگا کر
مر جاؤں گا مت اپنے سے یوں مجھ کو جدا کر
جو تیرا بھلا چاہے نہ بس اس کا بھلا کر
کرنا ہے تو بس اپنے ہی کرموں کا گِلا کر
پلکیں نہ جھکا تھوڑی سی آنکھوں کی پلا کر
تُو فیض سے مت ہاتھ اُٹھا خوب عطا کر
دل کہتا ہے "ایک اور دفعہ مجھ کو لگا کر
تبدیل ذرا میری بھی تو آب و ہوا کر"
معلوم ہے تیرا بتِ سیمیں ہے ترا بس
یہ سوچ کے گلیوں میں بھی اِترا کے چلا کر
دِکھتی نہیں وہ شوخی ترے چہرے پہ اب کیوں
کیا تجھ کو ملا جان مری مجھ کو بُھلا کر
ہنستا ہوا دیکھو تو نہ سمجھو کہ میں خوش ہوں
زندہ ہوں مگر عشق کے جزبوں کو سُلا کر
ایسا بھی نہیں ہے کہ نہیں کوئی ترے پاس
تنہائی میں تنہائی کی غزلیں نہ کہا کر
کوئی بھی وضاحت نہیں اور ہو بھی تو کیوں دوں
"میں تیرا ہوں " یہ کہتا ہوں نم پلکیں دکھا کر
جاں جانےہی والی تھی تغافل سے کہ سمبھلے
ہنستے ہوئے جو اس نے کہا "سوری" منا کر
گر کرنے ہیں سر تجھ کو نئے کوہ و منازل
جو رستہ ہو پامال اسے چھوڑ دیا کر
دل توڑ دے کوئی تو کوئی اور کوئی اور
گر عشق خطا ہے تو لگا تار خطا کر
گو سودہ ہے یہ دل کا مگر اس میں بھی دھوکا
کچھ اور دیا ہے مجھے کچھ اور دکھا کر
دل میرا لُٹا اور گرفتار بھی میں ہی
قانونِ محبت سے مجھے مستثنٰی کر
کوئی تو ہو جو دکھڑے مرے بانٹنے آئے
یارب مری آواز کو آشفتہ نوا کر
اس مرض محبت نے کہیں کا نہیں چھوڑا
پھر بھی نہیں دل کہتا محبت نہ کیا کر
جنت سے کسی طور نہ کم ہوگی یہ دنیا
حق مانگ مگر پہلے فرائض تو ادا کر
جتنا کہ ہے احساس ندیم اتنے نہیں غم
سو رہنے دو کیا پاؤ گے اوروں کو رلا کر