پوجنے سے پتھر کبھی خدا نھیں ھوتے
وفاؤں کے صلے لازم وفا نھیں ھوتے
وہ مجھ سے میری محبت کی گہرائی پوچھتا ھے
چشمے جتنے بھی گہرے ھوں دریا نھیں ھوتے
ھر کسی کے جلنے کا اپنا انداز ھوتا ھے
پروانے جتنے بھی جلائیں مگر دیا نھیں ھوتے
تم جب بھی چلنا اپنے پیروں پر ھی چلنا
آج کل کے لوگ کسی کا آسرا نھیں ھوتے
وہ مجھے کانٹا سمجھ کر گرا گیا راھوں میں
اسے شاید نھیں خبر کہ پھول کبھی کانٹوں سے جدا نھیں ھوتے