جادو کچھ ایسا چلا مجھ پہ حسن یار کا
اب حال پوچھئے نہ دل بےقرار کا
قسمت سے ہو گیا تھا قدم رنجہ یار کا
اب خوشبؤوں سے حلقہ ہے میرے مزار کا
لایا ہے یار سے میرے ، شب بھر کو مانگ کر
ہے چاند سارا حسن یہ تیرا ادھار کا
رکھ دیتا قدموں میں ترے دل کو نکال کر
ہوتا بھروسہ گر ترے قول و قرار کا
بس کھیل دھوپ چھاؤں کا کھیلے ہے زندگی
ہوتا ہے رقص روز ہی لیل و نہار کا
یا رب ! شراب عشق ہے کیسی بلا عجیب
اب تک ملا نہ توڑ جو اس کے خمار کا
اب حد سے بڑھ گئے ہیں ستمگر ترے ستم
بس بھی کر امتحاں مرے صبر و قرار کا
خواہاں ہوں بس چمن میں بہاروں کا میں حسن
شیدائی ہوں گلوں کا ، نہ دشمن میں خار کا