پوچھو اگر تو کرتے ہیں انکار سب کے سب
سچ یہ کہ ہیں حیات سے بیزار سب کے سب
اپنی خبر کسی کو نہیں پھر بھی جانے کیوں
پڑھتے ہیں روز شہر میں اخبار سب کے سب
تھا ایک میں جو شرط وفا توڑتا رہا
حالانکہ با وفا تھے مرے یار سب کے سب
سوچو تو نفرتوں کا ذخیرہ ہے ایک دل
کرتے ہیں یوں تو پیار کا اظہار سب کے سب
زنداں کوئی قریب نہیں اور نہ رقص گاہ
سنتے ہیں اک عجیب سی جھنکار سب کے سب
میدان جنگ آنے سے پہلے پلٹ گئے
نکلے تھے لے کے ہاتھ میں تلوار سب کے سب
ذہنوں میں کھولتا تھا جو لاوا وہ جم گیا
مفلوج ہو کے رہ گئے فن کار سب کے سب