پکار کی بھی حد ہوتی ہے دل کو درمان رکھو
جو فنائی تک جفا نہ کرے وہاں فرمان رکھو
یہ سنگدل ہے دنیا صدا تک نہیں سنتی
اپنے اظہار کو پھر بڑے اطمینان سے رکھو
تشخیص امراض پر شکیبائی ہی صحیح
راز جوئی کو چھپاکے کہیں گمنام رکھو
تمام پرندے ہوائیں دھکیل آتی ہیں
رہن کے لئے ایک خالی دل کا مکان رکھو
درد کے غالباً دھنواں اٹھتے رہے ہیں
لیکن کون جل رہا ہے یہ ارمان رکھو
نگاہ کی راہ میں پاؤں کو چلنا پڑتا ہے
سنتوشؔ بے جا حسرتوں کو نگہبان رکھو