ساہو گوٹھ سراب کی پگلی
ساہو گوٹھ کے میدانوں میں
شام ڈھلے تو آ جاتی ہے
مٹی کی آغوش میں بیٹھے
مٹی میں لتھڑے ہاتوں سے
سابق لفظ مٹا جاتی ہے
انگلی کے نازک ماتھے سے
نئے لفظ جگا جاتی ہے
شاید وہ تاریخ ہے لکھتی
اپنے بیتے سالوں کی
جس میں وہ اک شہ زادی تھی
خوابوں اور خیالوں کی
اپنے نازک ماضی میں وہ
ہر لمحہ خاموش تھی رہتی
سوچوں میں پرجوش تھی رہتی
چادر میں روپوش تھی رہتی
جب آئینہ دیکھ کے آتی
چادر سے پھر منہ کو چھپانی
ہر لمحہ ایسے شرماتی
کوئی اس کو دیکھ رہا ہو
وہ سندر ساہو کی پگلی
جو دن بھر کو پھول تھی چنتی
رات کی آنکھ میں خواب تھی بنتی
خود ہی گیت بہار کے گا کر
خود اپنی آواز کو سنتی
کون جانے وہ کیسی تھی
پھول بہار کے جیسی تھی
خواہش کی رنگین سی دنیا
میں تن تنہا رہتی تھی
جانے پھر کیوں اس دنیا نے
اس کے سوہنے من کو توڑا
درد کے سب پیوند لگا کر
اس کا رشتہ غم سے جوڑا