پھر دسمبر لوٹ آیا پھر دسمبر لوٹ آیا
یادتیری ساتھ لایا پھر دسمبر لوٹ آیا
پاس میرے بیٹھ کر تیرا کئی پل بات کرنا
اور تیرا مجھ کو چھوناتو کبھی زانوں پہ سونا
آج بے حد یاد آیا پھر دسمبر لوٹ آیا
اپنی چادر میں مجھے تونے لپیٹ لیا تھا جاناں
کچھ گھڑی کو اپنی سانسوں میں سمیٹ لیا تھا جاناں
مجھ کو رگ رگ میں سمایا پھر دسمبر لوٹ آیا
عہد بھی لیتی رہی مجھ سے قسم بھی کھائی تُونے
ہاں بتانا پھر کہاں تک جان وہ نبھائی تُو نے
خوب مجھ سے ہے نبھایا پھر دسمبر لوٹ آیا
لوٹ آتا ہے نیاغم لے کے اکثر یہ دمسبر
پیش کرتا ہے پُرانے وہی منظر یہ دسمبر
کیا صلہ گلشادپایا پھر دسمبر لوٹ آیا