نہ کہو یہ کہ تو نے مدعا جانا ہی نہیں
میں نے جز تیرے ابھی اور تو لکھا ہی نہیں
تو پھر کیا بھاگنا ڈر کر فریب ہستی سے
جبکہ دامن پہ کوئی دست زلیخا ہی نہیں
وہ تماشہ کہ جس میں برف سے شعلے نکلیں
وہ تماشہ تو ابھی آپ نے دیکھا ہی نہیں
چاندنی رات میں جل اٹھیں نہ پلکوں پہ چراغ
پھر سمجھ لینا میں نے آپکو چاہا ہی نہیں
لوگ کہتے ہیں تو شاید وہ سچ ہی کہتے ہیں
حسن سے آگے ابھی سوچ نے سوچا ہی نہیں
عجیب بات ہے کہ وہ بھی مسیحا ٹھہرے
میرے زخموں کا جن کے پاس مداوا ہی نہیں
وہ جس میں سب سے اولیں تمہارا نام نہ ہو
عشق کی لغت میں ایسی کوئی دعا ہی نہیں