پھر سے کروں محبت نہ بابا نہ
پھر سے تری چاہت نہ بابا نہ
بال بال بچے محبت میں جا کے
دوبارہ وہی ہمت نہ بابا نہ
تجھے پا کے بھی غمزدہ میں رہا
اب جو تری ضرورت نہ بابا نہ
پھول کانٹوں سے بھی زہریلے
گلاب کی مجھے حسرت نہ بابا نہ
اور نہ کوئی غم اب دینا مجھے
مجھ میں اور طاقت نہ بابا نہ
دل کو سزا ملی محبت کرنے پے
آئے وہی پھر قیامت نہ بابا نہ
اب نہ جھوٹا پیار دکھاؤ مجھے
دیکھ لو میری حالت نہ بابا نہ
محبت کی حقیقت یہ ہے نہالؔ جی
بھیڑ میں اِک خلوت نہ بابا نہ